*سندھ اسمبلی پہ دھرنا کیوں ہورہا ہے*کراچی دھرنے کے مطالبات*

  1. پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ اوسطاً 20 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی ہے جبکہ کراچی میں 65 ہزار کی آبادی پر ایک یونین کونسل بنائی گئ ہے… کراچی دھرنے کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں یونین کونسلز کی تعداد 600ہونی چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی نے صرف 233یونین کونسلز بنائی ہیں. جب کراچی میں زیادہ یونین کونسلز ہوں گی تو گلی محلے کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام ہوں گے. اس لیے کہ ہر یونین کونسل کو سالانہ کم از کم 60 لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ آمدنی کے دیگر ذرائع اس کے علاوہ ہوتے ہیں.
  2. جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ کراچی میں دنیا کے بڑے شہروں کی طرح بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے اور جس طرح لندن، پیرس، استنبول، اور تہران وغیرہ کا میئر بااختیار ہے کراچی کا میئر بھی بااختیار ہونا چاہیے
  3. واٹر بورڈ کے ادارے کا قیام 1983میں میئر کراچی عبدالستار افغانی کے دور میں ہوا تھا، یہ ادارہ سندھ حکومت نے چھین لیا اور پچھلے 14سال میں کراچی کو پانی کی فراہمی میں ایک بوند پانی کا اضافہ نہیں کیا. 100ملین گیلن پانی روانہ کی فراہمی کا آخری منصوبہ اگست 2003میں نعمت اللہ خان کے دور میں کراچی کو ملا. کے فور پر آج تک کام شروع نہیں ہوسکا اور کراچی میں پانی کا بدترین بحران ہے، کراچی دھرنے کا مطالبہ ہے کہ واٹر بورڈ دوبارہ میئر کے تحت ہونا چاہیے.
  4. دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح ٹرانسپورٹ کا پورا نظام میئر کے پاس ہونا چاہیے. سندھ حکومت نے 14سال میں صرف 10بسیں چلائی تھیں جبکہ آج کراچی کو پانچ ہزار بسوں کی ضرورت ہے، جب 2001 سے2005 کراچی میں ایک بااختیار سٹی ناظم تھا تو صرف 4 سال میں 364بڑی اور کشادہ ایئرکنڈیشنڈ بسیں 15سے زائد روٹس پر چلتی تھیں. 2005سے2010تک دوسری شہری حکومت نے مزید 70 بسیں چلائیں جب کہ پیپلز پارٹی نے 14سال میں صرف 10بسیں چلائی ہیں.
  5. کراچی میں 3ہزار سے زیادہ سرکاری اسکولز ہیں، یہ تمام سرکاری اسکولز پہلے سٹی ناظم کے پاس تھے، پیپلز پارٹی نے یہ تمام اسکولز چھین لیے، میئر کراچی وسیم اختر کے پاس صرف کے ایم سی کے اسکولز رہ گئے تھے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے مگر اب نئے بلدیاتی قانون کے مطابق میئر کے ماتحت کوئی اسکول نہیں ہوگا. کے ایم سی کے سینکڑوں اسکولز پر
    بھی صوبائی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے، اگر یہ ہزاروں اسکولز دیانت داری اور اچھے وژن کے مطابق چلائے جائیں تو شہریوں کی مہنگے پرائیویٹ اسکولز سے جان چھوٹ سکتی ہے.
  6. نئے بلدیاتی قانون 2021کے بعد پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے زیر کنٹرول اسپتالوں جیسے عباسی شہید اسپتال ، سرفراز رفیقی اسپتال ، سوبھراج اسپتال ، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز سمیت درجن بھر اسپتال اور کے ایم سی کی لاتعداد ڈسپنسریوں پر قبضہ کرلیا ہے. سندھ حکومت کے پاس اربوں کا بجٹ ہے مگر ان اسپتالوں میں جاتے ہوئے بھی مریضوں کو خوف آتا ہے، کراچی میں سرکاری شعبے میں صحت کا نظام سندھ حکومت نے تباہ کردیا ہے.
  7. ایک زمانے میں کراچی میں فیڈرل بی ایریا، گلشن اقبال، نارتھ ناظم آباد، بفرزون اور نارتھ کراچی سمیت متعدد رہائشی منصوبے شروع کیے جہاں لاکھوں افراد کو مناسب قیمت میں پلاٹس مل گئے، سرجانی ٹاؤن میں کم آمدنی والے لاکھوں افراد کو ٹھکانہ ملا مگر اب سندھ حکومت کے ڈی اے، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے پر قابض ہے. کراچی بلڈرز کے رحم و کرم پر ہے. سندھ حکومت نے کے بی سی اے کو ایس بی سی اے بنا کر قبضہ کرلیا ہے اور یہ ادارہ رشوت کا گڑھ ہے. کراچی میں لوگوں کا سرمایہ غیر محفوظ ہے. شہری کسی پراجیکٹ میں سرمایہ لگاتے ہیں بعد میں معلوم ہوتا ہے یہ تو غیر قانونی تھا.
  8. کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، سندھ حکومت نے لینڈ مافیا کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، سوسائٹیز کے ہزاروں الاٹیز مارے مارے پھر رہے ہیں، کوئی انصاف دینے والا نہیں، نہ عدالتیں سنتی ہیں نہ سندھ حکومت. ان سوسائیٹیز میں کراچی کے ہزاروں افراد کی جمع پونجی لگی ہوئی ہے، آئے روز احتجاج کرتے ہیں مگر لینڈ مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں ہے.

خلاصہ یہ ہے کہ 2013میں پیپلز پارٹی نے کراچی سے ٹرانسپورٹ، پانی، بلڈنگ کنٹرول، کے ڈی اے، ماس ٹرانزٹ، سالڈ ویسٹ اور ماسٹر پلان کے ادارے چھینے تھے اور 2021میں صحت اور تعلیم سمیت باقی اداروں پر بھی قبضہ کرلیا ہے. سندھ حکومت نے کراچی کے تمام اداروں پر قبضہ کرکے. مستقبل کے میئر کراچی کو "شو بوائے” بنادیا ہے. میئر کوئی میگا پراجیکٹ بھی لانچ نہیں کرسکے گا. پیپلزپارٹی نے جس طرح اندرون سندھ تمام اسپتالوں، تعلیمی اداروں شہروں و دیہاتوں کو تباہ و برباد کردیا ہے اب وہ کراچی کو بھی لاڑکانہ اور تھر بنارہی ہے. ان اداروں پر قبضہ کرنے کا مقصد صرف جیالوں کی بھرتیاں ہے.
سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی کا دھرنا اسی لیے ہے کہ کراچی کو تمام بلدیاتی ادارے اور صحت، ٹرانسپورٹ و تعلیم کا نظام واپس کیا جائے تاکہ شہر کے لوگ شہر کی ترقی و بہتری کے فیصلے خود کریں. کراچی کے روشن مستقبل کے لیے ہر فرد کو دھرنے میں جانا چاہیئے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا پارٹی سے ہو. کراچی دھرنے کے مطالبات درحقیقت ہر کراچی والے کے مطالبات ہیں.